For his services in Jordan, Bhutto promoted him and made him the Chief of Army Staff and within a year Zia staged a coup d'etat against Bhutto. Zia later led America's war in Afghanistan against the Soviets which which he marketed in Pakistan and the Muslim world as Jihad against the infidels. In reality it was actually a master plan of Charlie Wilson's. (For more read George Crile's book: Charlie Wilson's War (2003), a New York Times best-seller).
When the last Soviet soldier left Afghanistan in February 1989, Wilson was invited to celebrate at CIA headquarters in Langley, Virginia. On a large movie screen in an auditorium flashed a huge quotation from Pakistan's president at the time, General Mohammad Zia ul-Haq: "Charlie did it." The Soviet Union collapsed two years later. So this is Zia in brief.
I think Muhammad Hanif has written one of the most honest and hard - hitting article on General Zia who slowly poisoned the entire Pakistan. No wonder when one ethnic group kills another or one sect or one religious groups persecutes another - all I can think of is Zia's era. Hanif puts it beautifully .....
اگر یہ بچوں کی کہانی ہوتی تو ہم یہاں پر کہہ سکتے تھے کہ پس ثابت ہوا کہ ظلم کو دوام نہیں، ظالم کو کوئی اچھے لفظوں
میں یاد نہیں رکھتا اپنے آپکو خدا سمجھنے والے
ریت کے بت ہوتے ہیں۔ تاریخ سب سے بڑی منصف ہے اور اُسکی کی سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ
وہ آپ کا نام نشان مٹا دیتی ہے۔ دیکھو، دیکھو کیا عبرت کا نشان ہے کہ جس شخص نے
پوری قوم کو ٹکٹکی پر لٹکایا۔ آئین کو کاغذ کا چیتھڑا بتایا....... جو اپنے لوگوں کو غلام بنا
کر افغانستان، بھارتی پنجاب اور کشمیر کو آزاد کرانے چلا جس نے اپنی طمع کو اللہ کا
قانون قرار دیا اور اللہ کے قانون کو گلی گلی بدنام کیا۔ آج اس کا نام بھی بھلا دیا
گیا۔
He further says:
ضیاء کسی انسان کا نام ہوتا تو شاید ہم بھول گئے ہوتے، لیکن وہ ایک سوچ کا نام تھا، فکر کا نام تھا۔ یا یوں کہیے ایک وبا کا نام تھا جو ہمارے خون میں سراعیت کر گئی اور ہمیں پتہ بھی نہ چلا۔
جب بھی کبھی ’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘ کا نعرہ سنتا ہوں تو جی چاہتا ہے کہ ان دیوانوں کو سمجھاؤں کہ نہیں بھٹو پھانسی پر جھول گیا آؤ تمہیں دکھاتا ہوں کہ کون زندہ ہے۔ دیکھوں تمھاری سڑکوں، چوکوں پر، تمہاری ریڈیائی لہروں پر، تمہارے موبائل فون کی رِنگ ٹون میں، جدھر دیکھو، جدھر سنو، ضیاء زندہ ہے۔
وہ زندہ ہے ہمارے بچوں کو پڑھائی جانے والی کتابوں میں، ان کو سنائی جانے والی لوریوں میں، ہمارے آئین میں، قانون میں، اس قانون کی حفاظت کرنے والوں کے ضمیر میں، اس قانون کو اللہ کا قانون بنانے کا وعدہ کرنے والے کے دماغ میں۔ وہ زندہ ہے مسجدوں میں پھٹنے والے سرفروش نوجوانوں کے دلوں میں، وہ زندہ ہے ٹی وی کے ڈراموں میں، ٹی وی ٹاک شو کے میزبانوں میں، ہمارے حلق سے نکلی جعلی عربی آوازوں میں، وہ زندہ ہے حجابوں میں، نقابوں میں، ہیروئین کی دولت سے بنے محلوں میں، لگثرری عمروں میں، حرام کو حلال کرتے بینک اکاؤنٹوں میں۔
وہ زندہ ہے شادی پہ چلائی جانے والی کلاشنکوف کی آواز میں، وہ چھپا ہے ہر اُس چوک پہ جہاں ستر سالہ بڑھیا بھیک مانگتی ہے اور آپکو حاجی صاحب کہہ کر پکارتی ہے۔ وہ زندہ ہے ہر اس پولیس والے کے سوال میں جب وہ کہتا ہے نکاح نامہ کہاں ہے۔ وہ اپنا خراج مانگتا ہے جب کہتا ہے کہ دوسروں کو کافر
قرار نہیں دوگے تو شناختی کارڈ نہیں ملے گا۔
وہ زندہ ہے اور آسیہ بی بی کی کال کوٹھڑی کا پہرے دار ہے۔ وہ ہر احمدی، ہر شیعہ، ہر ہندو، ہر عیسائی کے سر پہ لٹکی تلوار ہے۔
وہ زندہ ہے ہمارے سیاسی ڈھانچے میں، ہماری چادر اور چار دیواری میں، ہمارے احتساب میں، ہمارے مثبت نتائج میں، ہمارے نظام مصطفیٰ کی تلاش میں، ہمارے امتِ مسلمہ کے خواب میں، وہ زندہ ہے ہمارے ہر عذاب میں۔
جب احمد پور شرقیہ کے چنی گوٹھ چوک پر ہزاروں لوگ اکھٹے ہوتے ہیں اور ایک ملنگ
پر تیل چھڑکنا شروع کرتے ہیں تو وہ اس ہجوم میں شامل ہر شخص کے دل میں زندہ ہے۔ جب
ملنگ کو آگ لگائی جاتی ہے اور وہ چیختا ہے تو لوگوں
کی سفاکانہ خاموشی میں سے یہی
آواز آتی ہے۔ دیکھو میں زندہ ہوں۔
You can read the original article by Muhammad Hanif of the fame of " A Case of Exploding Mangoes (2008) " at BBC Urdu here in a better/clearer format.